Thursday, August 4, 2011

آج کا افغانستان اور ایک ذاتی وضاحت

سلیم صافی
گزشتہ ایک ہفتہ افغانستان میں گزرا اور اس حسین و جمیل دھرتی کو جتنا بے چین اور بے یقینی کا شکار اب کے بار پایا، پہلے کبھی نہیں پایا تھا۔ سیکورٹی کے انتہائی اقدامات کی وجہ سے کابل کا خوبصورت اور دلآویز شہر شاید اسلام آباد سے زیادہ محفوظ ہے لیکن کنفیوژن، شکوک، خدشات اور عدم تحفظ کا احساس اس قدر کہ الحفیظ والامان۔بھائی کی فاتحہ کی غرض سے افغان صدر حامد کرزئی کی خدمت میں حاظر ہوا۔ انہیں پہلی بار رنجیدہ اور زیردباؤ پایا۔ انہوں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹھہرا دیا۔ وہاں نوجوان شاعر اور صحافی ہارون حکیمی زابل صوبے کے ایک نوجوان کو ملوانے لائے تھے۔

دس کے قریب بہن بھائیوں کا گروپ فوٹو ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کرزئی صاحب کے سامنے فریاد کرنے لگے کہ والد کے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے کے بعد وہ گھر کے واحد کفیل رہ گئے ہیں۔ انہیں تعلیم کا سلسلہ بھی ختم کرنا پڑگیا لیکن اب انہیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس لئے انہیں اور ان کے گھرانے کو کابل منتقل کرکے روزگار دلوایا جائے۔ نوجوان اپنا قصہ بیان کررہے تھے تو کرزئی صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نوجوان کے حوالے سے اپنے چیف آف اسٹاف عبدالکریم خرم کو ہدایات جاری کرنے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگے کہ اس طرح کے روزانہ درجنوں کیسز میرے پاس آتے ہیں۔ ہمارے ہر صاحب حیثیت فرد کو جینے اور ہمارے بچوں کو پڑھنے نہیں دیاجارہا ہے پھر آپ لوگ مجھے کہتے ہو کہ جذباتی نہ ہوں۔ آخر افغان اور انسان ہوں، جذبات پر کب تک قابو رکھوں گا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حامد کرزئی ہر حوالے سے بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ان کی کشمکش، تصادم میں بدل گئی ہے۔ امریکیوں کی اتنی توانائیاں طالبان کو کاؤنٹر کرنے کے لئے صرف نہیں ہورہی ہیں، جتنی وہ حامد کرزئی کو سبق سکھانے پر صرف کررہے ہیں اور حامد کرزئی بھی طالبان سے زیادہ امریکی سازشوں اور بے وقوفیوں کا مقابلہ کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ امریکی انہیں اپنے ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں اور کابل کے باخبر افراد حامد کرزئی کی زندگی کے بارے میں پریشان اور سانحہ بھاولپور جیسے کسی سانحے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں، دوسری طرف امریکی حامد کرزئی کی کسی کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیتے۔ وہ طالبان اور دیگر مخالفین سے ہر قیمت پر مفاہمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ جومطالبات کررہے ہیں انہیں پورا کرنا کرزئی صاحب کے بس کی بات نہیں۔

طالبان اور حکمت یار مذاکرات کے آغاز کیلئے غیرملکی افواج کے انخلاء کی شرط عائد کررہے ہیں اور امریکیوں نے دباؤ بڑھایا ہوا ہے کہ حامد کرزئی 2014 ء کے بعد وہاں پر ان کے فوجی اڈوں کی موجودگی کے لئے اسٹریٹجک معاہدہ ( جس کے لئے حامد کرزئی تیار نہیں) پر دستخط کریں ۔ایک طرف حکومتی مخالفین کے ساتھ صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور دوسری طرف ازبک، تاجک اور ہزارہ افغانوں کے ساتھ ساتھ وہ پختون افغان بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کی شدید مزاحمت کررہے ہیں جو طالبان کے دور میں زیرعتاب رہے۔ طالبان اور حکمت یار حامد کرزئی سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے اور مذکورہ عناصر افغان میڈیا کیساتھ ملکر حامد کرزئی کو طالبان کا ہمدرد اور ایجنٹ جیسے طعنوں سے نواز رہے ہیں ۔ پاکستانی عوام اور میڈیا کی نظروں میں حامد کرزئی پاکستان مخالف اور امریکی ایجنٹ ہے جبکہ افغانستان میں ان کے مخالف عناصر اور افغان میڈیا(جو غیرپشتونوں کے زیراثر ہے) حامد کرزئی اور ان کے ساتھیوں کو پاکستانی پٹھو، آئی ایس آئی کا تنخوا دار اور وطن کے غدار جیسے القابات سے یاد کررہا ہے ۔ وہ تعاون کے سلسلے میں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پاکستان ناراض ہوتا ہے اور پاکستان کے قریب آتے ہیں تو امریکہ برہم ہوجاتا ہے۔ ایران کو قریب لاتا ہے تو سعودی عرب کی ناراضگی یقینی ہے اور مکہ کا رخ کرتے ہیں تو تہران تعاون سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا کردار بھارت کو گوارا نہیں اور ہندوستان کا اثرورسوخ پاکستان کو راس نہیں آتا۔

دراصل جنگی حکمت عملی کی ناکامی کے بعدامریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے افغانستان میں ایک نہایت گندے دھندے کو رواج دیا۔ انہوں نے عراق کی طرز پر طالبان کے دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی جس کے جواب میں طالبان اور دیگر عناصر بھی اس جانب متوجہ ہوئے۔ چنانچہ آج پراسرار ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے پورا افغانستان اور بالخصوص پختون بلٹ جہنم بن گیا ہے۔ کوئی فرد کسی بھی شعبے میں اگر قیادت یا حیثیت کا حامل ہے تو اسے نہیں چھوڑا جارہا ہے ۔ قبائلی سردار ہو، سیاسی یا جہادی رہنما ہو، ادیب ہو، شاعر ہو، صحافی ہو، کاروباری ہو یا صاحب فن ، جو بھی سراٹھاتا ہے اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ کوئی خودکش حملے میں مارا جاتا ہے، کسی کو بارودی سرنگ کے ذریعے اڑایاجاتا ہے اور کسی کو گولی کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن قاتل کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ احمد ولی کرزئی کے قتل کو دیکھ لیجئے، انہیں پاکستان میں پاکستان کا دشمن اور افغانستان میں آئی ایس آئی کا ایجنٹ کیا جاتا تھا۔ خود ان کے اہل خانہ کو بھی یقین ہے کہ ان کی ہلاکت میں طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔

امریکہ کے زیراثر حامد کرزئی کے مخالفین یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ احمد ولی کرزئی کو آئی ایس آئی نے قتل کرایا اور مزید یقین دلانے کے لئے ان عناصر نے قندھار میں پاکستان کے خلاف مظاہروں کا پروگرام بھی بنادیا جس کی حامد کرزئی نے اجازت نہیں دی لیکن دوسری طرف افغانستان کے اندر کم وبیش ہر پختون کو یقین ہے کہ احمد ولی کرزئی کو سی آئی اے نے قتل کرایا ہے ۔لوگ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر طالبان ہی سب کچھ کررہے ہیں تو پھر پرانے کمیونسٹوں اور شمال کے لیڈروں کی بجائے صرف پختون اور زیادہ تر پرانے مجاہد کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟ دراصل ماضی میں حامد کرزئی بھی دو بڑی سنگین غلطیوں کے مرتکب ہوئے۔ موقع اور وسائل ہونے کے باوجود انہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی سیاسی جماعت نہیں بنائی۔ دوسری طرف جو بھی پختون آگے بڑھتا اس سے وہ خطرہ محسوس کرتا، یوں انہوں نے اپنے بعد کسی اور پختون کو بطور لیڈر ابھرنے نہیں دیا۔ احمد ولی کرزئی ان کا ممکنہ جانشین بن سکتے تھے لیکن وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب خاکم بدہن اگر حامد کرزئی کو کچھ ہوگیا تو پختونوں میں ان کی جانشینی کے لئے کوئی متبادل تیار نہیں۔ یوں لامحالہ دنیا، امریکہ اور افغان کسی غیرپختون کی طرف جائیں گے جو پاکستان اور طالبان دونوں کا شدید مخالف ہو گا۔

لگتا ہے افغانستان ایک بار پھر انارکی کی طرف جارہا ہے۔ امید ختم ہوتی جارہی ہے اور مایوسی پھیل رہی ہے۔ افغانستان کے اندر بھی عام تاثر یہی ہے کہ امریکی پاکستان اور حامد کرزئی کے عدم تعاون کی وجہ سے برہم ہوگئے ہیں ۔ وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوگئے ہیں ۔اب وہ افغانستان اور پاکستان دونوں سے انتقام لینے پر اتر آئے ہیں ۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہرناپرسان کو جہنم بنایا جارہا ہے۔ بچاؤ کا واحد راستہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر حامد کرزئی، طالبان اور حزب اسلامی آپس میں مفاہمت کرلیں ۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان حقیقی معنوں میں پورے اعتماد کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنائیں۔ تعلقات کافی بہتر ضرور ہوئے ہیں لیکن افغان حکومت پاکستان کے رویّے سے اب بھی مطمئن نہیں جبکہ پاکستان میں بھی بدستور حامد کرزئی کے بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح جو بھی حکمت عملی بنے ، اس میں ایران اور چین کو بھی ساتھ لینا ہوگا۔ امریکہ جیسی بڑی قوت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے اس غلیظ گریٹ گیم کو صرف اس صورت میں ناکام بنایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ چار کھلاڑی اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان شک پر مبنی نیم دلانہ تعاون کی بجائے اخلاص اور حقیقی تعاون کا مظاہرہ کریں ۔اس عمل میں ترکی اور سعودی عرب کا تعاون اور رول بھی ضروری ہے۔نہیں تو امریکی بھی ہار جائیں گے اور ہم بھی ۔ وہ تو ہارنے کے بعد واپس چلے جائیں گے لیکن ہماری آئندہ نسلیں اس جہنم میں کیسے جئیں گی ؟

ایک وضاحت: محترم ہارون الرشید صاحب بلبل نالاں ہیں اور سوائے چند زیادہ تر ہر کسی سے نالاں رہتے ہیں لیکن میرے دل میں ان کے غیرمعمولی عزت اور محبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ کبھی مجھ سے نالاں نہیں ہوئے۔ میں نے ہمیشہ انہیں احترام اور انہوں نے بے انتہا محبت سے نوازا ۔ ان کی اس محبت اور شفقت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کالم بھیجنے کے بعد انہوں نے مجھے افغانستان فون کیا اور پہلے سے آگاہ کیا کہ تمہارے بارے میں کالم جاچکا ہے۔ میرے وضاحتی کالم کو پڑھنے سے انہیں بڑا دکھ ہوا اور انہوں نے کالم سے جو تاثر لیا ، اس کے بعد وہ حق بجانب بھی تھے۔ اس دن ان کا فون آیا تو میں نے دیکھا کہ بلبل نالاں پہلی بار بلبل رنجیدہ بنکر غیرمعمولی طور پر سنجیدہ گفتگو کررہے ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ میں نے ان کی توہین کی ہے۔ جواب میں استغفراللہ کہتے ہوئے عرض کیا کہ کبھی سیاسی لیڈروں کے بارے میں کوئی لفظ توہین کی غرض سے نہیں لکھا تو آپ جیسے بڑے بھائی اور استاد کے بارے میں یہ گستاخی کیسے کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تم دوبارہ پڑھ لو۔ تم نے مجھے فلاں اور فلاں کا ایجنٹ بنا دیا ہے۔

جواباً عرض کیا کہ بلاشبہ کالم رات کے تین بجے لکھا ہے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میں دن کی طرح رات کو بھی ہوش میں رہتا ہوں۔ اگر واقعی آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ میں نے آپ کی توہین کی ہے تو معذرت لیکن کالم میں نے بقائمی ہوش و حواس اور انفرادی احتجاجوں کے طویل سلسلے کے بے اثر ہونے کے بعد (گویا اپنے نالے کو پختہ ہونے کی خاطر میں نے کئی ماہ نہیں بلکہ کئی سال تک پختہ ہونے کے لئے سینے میں تھامے رکھا تھا) لکھا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں مغربی افغانستان گیا تھا اور ابھی پغمان سے لوٹ کر آیا ہوں ۔ تھکا ہوا ہوں اور آپ کی ہدایت کے مطابق کالم دوبارہ پڑھنے کے بعد بات کرونگا۔ دوبارہ پڑھنے کے بعد بھی میں اپنی رائے پر قائم ہوں۔ تاہم اگر ہارون الرشید صاحب کو اس میں کہیں توہین کا پہلو نظر آیا ہے تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔ ان سے نظریاتی اختلاف تھا ، ہے اور شاید مستقبل میں بھی رہے گا لیکن میرے دل میں نہ صرف ان کا بے حد احترام ہے بلکہ ان کی اردو دانی اور جرأت پر مجھے رشک آتا ہے ۔ بڑا بھائی اور استاد ہونے کیساتھ ساتھ میں چونکہ ہارون الرشید صاحب کو مخلص ، قیمتی اور باصلاحیت انسان سمجھتا ہوں۔

عمران خان کی طرح جب میں ان کی صلاحیتوں کو غلط جگہ پر استعمال ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے دکھ بھی بہت ہوتا ہے لیکن یہ دکھ اب میں دل ہی دل میں سہتا رہوں گا اور آئندہ کیلئے وہ میری ذات کے بارے میں کچھ بھی لکھیں میں جواب نہیں دوں گا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ”جنگ“ کا یہ قیمتی صفحہ بھائیوں اور دوستوں کی جنگوں کی بجائے قوم اور ملک کے مسائل پر بحث کیلئے مختص ہے۔ ایشوز اور اصولوں کے لحاظ سے اختلاف کی گستاخی آئندہ بھی کرتا رہوں گا لیکن ذات کے حوالے سے نہ جواب دوں گا اور نہ انہیں موضوع بحث بناؤں گا۔ میں اس دن سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ دانستہ ہارون الرشید جیسے محترم بھائی اور استاد کی توہین کروں۔ وہ بلبل نالاں بھی رہے تو میرے لئے محترم ہیں۔ انہیں بلبل رنجیدہ بنتے نہیں دیکھ سکتا۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ